فلسطین دوست ناشران کا اظہارِ یکجہتی
فلسطین دوست ناشرین کی طرف سے جنگ بندی کے حق میں اور فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے خلاف پابندیوں کی مذمت میں بیان
ہم انصاف اور آزادیِ تحریر و تقریر کی اقدار کے ساتھ کھڑے ناشرین اور دنیا بھر کے اشاعتی اداروں سے منسلک افراد کواس مراسلے پر دستخط کرنے، اور فلسطین دوست ناشرین کی اس عالمگیر یکجہتی کی تحریکِ میں اپنے شانہ بشانہ چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔
ہم فلسطینیوں کی ہمت، تخلیقی صلاحیت اور جدوجہد، اور اُن کے اپنے وطن سے بے انتہا محبت اور اسرائیل کے لرزہ انگیز اور شدت پسندانہ اقدامات کے باوجود جبری زبان بندی اور خود فراموشی کے خلاف ڈٹ جانے کا احترام کرتے ہیں۔ مغربی میڈیا اور ان کی ثقافتی صنعتوں کی سردمہری کے باوجود ہماری امیدوں کی لَو ان آوازوں کے سوز سے جلِا پاتی ہے جو سوشل میڈیا اور دنیا بھر کے گلی کوچوں میں ہر روز اکٹھی ہوتی ہیں، ان کے حق میں لکھتی، بولتی اور گاتی ہیں، اور کسی نہ کسی طرح باطل کے خلاف برسرِ پیکار رہنے کے عزم کا اعادہ کرتی ہیں۔
پچھلے ماہ ہم غزہ کے نہتّے عوام پر اسرائیل کی مسلسل اور وحشیانہ بمباری کی اجتماعی سزا کے شاہد تھے، جس میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، یورپ اور آسٹریلیا کی پشت پناہی سے ممنوعہ فاسفورس بموں اور نئے اور سفاک ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔ ہم نے گیارہ لاکھ فلسطینیوں کو غزہ کے شمال میں واقع اپنے گھروں سے جنوب کو کوچ کرتے دیکھا اور جب وہ وہاں پہنچے تو ہسپتالوں، مہاجر کیپموں، اسکولوں، کلیساؤں اور مسجدوں میں قائم کی جانے والی عارضی پناہ گاہیں وحشیانہ بمباری سے تباہ کردی گئیں۔ ہمارے سامنے اس وقت تئیس لاکھ متاثرین ہیں جن میں بچوں کی تعداد پچاس فیصد ہے۔ ان تمام مظلوموں کے سر پر نہ تو چھت ہے اور نہ ہی اسرائیلی پابندیوں کے باعث خوراک، پانی، ایندھن اور بجلی کی بنیادی ضروریات تک رسائی۔ اب تک دس ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں ان خاندانوں کی مکمل نسلیں بھی شامل ہیں جو ۱۹۴۸ء کے خروج میں ہجرت کر کے غزہ میں آباد ہوئے تھے۔ اس پر مستزاد اسرائیل کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے پینتیس سو بچوں کا اندوہناک غم! ہولوکاسٹ اور نسل کشی کے یہودی اسکالر راز سیگل کا کہنا ہے کہ’’اسرائیل کی غزہ پر نسل کش چڑھائی دھڑلے سے کی گئی ننگی جارحیت کا ایک نمونہ ہے۔‘‘
اسرائیل اور مغربی قوتیں اختلافِ رائے کو مٹا دینے کی سر توڑ کوشش میں ہیں تاکہ دنیا کے معاملات میں اپنا ڈگمگاتا ہوا اختیار کسی نہ کسی طور بحال رکھا جائے۔ ۷ اکتوبر سے اشاعتی اور میڈیائی منظرنامے میں اظہار پر شدید قدغنیں ہیں۔ ہم غزہ میں ہونے والےدرجنوں صحافیوں کے قتل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں جن میں فیاض ابومطر، سعید التاویل، محمد ثوب، ہشام النوجہ، محمد الصالح، محمد جارغون، احمد شہاب، حسام مبارک، محمد بلوشا، اسام بحر، سلام میما، اسعاد شملاخ، ابراہیم محمد لافی، خلیل ابوآثرہ، سمیح النادی، عبدالہادی حبیب، یوسف مہر دواس اور رشدی سراج شامل ہیں۔
ان ثقافتی کارندوں کے طور پر جو الفاظ اور زبان پر خاص نظر رکھتے ہیں، ہماری رائے میں اس نسل کشی کا آغاز اسرائیلی قابض افواج کے عسکری لیڈران نے فلسطینیوں کے بارے میں’’انسانی حیوان‘‘ جیسی تراکیب کے استعمال سے کیا، تاکہ غزہ کے غیر مسلّح عوام پر کیے جانے والے بہیمانہ حملوں کے لیے جواز مہیا کیا جا سکے۔ ان لوگوں کی طرف سے ایسی شرمناک زبان کا استعمال حیران کن ہے جن کے آبا نے نسل کشی ہی کے ضمن میں یہ سب کچھ بھگتا ہو۔اس تناظر میں ہمیں صیہونی (اور عیسائی) اساطیر میں گندھی ہوئی نسل کشی اور نابودگی کے نظریات سے لبریز وہ زبان بھی یاد آتی ہے جو ایک سو چھ سال قبل ۲ نومبر ۱۹۱۷ء میں نوآبادیاتی برطانیہ کے اعلانِ بالفور میں استعمال ہوئی:’’بے وطن قوم کے لیے ایک بے آباد وطن۔‘‘
سفید فام برتری، نوآبادیاتی نظریات اور سرمایہ دارانہ سوچ پر مبنی نابودگی، بے دخلی اور استبداد کے ڈھانچوں کے تمام تاریخی ادوار لمحۂ موجود میں یوں منعکس ہو گئے ہیں کہ فنونِ لطیفہ اور ثقافت کی لطیف دنیائیں بھی ان کی لپیٹ میں آ چکی ہیں۔ فرینکفرٹ کتاب میلے میں فلسطینی مصنف ادانیہ شبلی کو ایوارڈ نہ دینے سے لے کر (جس کے خلاف ایک ہزار مشہور مصنفین اپنا احتجاجی مراسلہ شائع کر چکے ہیں) ویٹ تھان گوئین کی نیویارک، اور محمد الکرد کی ورمونٹ یونیورسٹی میں نشست کی منسوخی، اور پھر آرٹ فورم میگزین کے ایڈیٹر ڈیوڈ ولاسکو کی حالیہ برطرفی سے مغربی ادب و اشاعت کے اداروں کی امریکی اور اسرائیلی سیاسی و معاشی مفادات کی گہری کنارپوشی ظاہر ہوتی ہے، جس کے مطابق ان تمام مصنفین کی آواز بند کرنا ضروری ہے جو فلسطین کے حق میں بات کر تے ہیں۔
ہم کارپوریٹ یا آزاد اشاعتی اداروں سے منسلک ان تمام افراد کی مذمت کرتے ہیں جو ا پنی بزدلی یاخاموشی کے ذریعےاسرائیلی تسلط کے مطالبات سے سمجھوتہ کرنے والے سامراجی اختیار دہندگان، ساہوکاروں اور ریاستوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم فلسطینیوں کے آواز میں آواز ملانے والے مصنفین پر پابندیاں لگانے والوں، اورکتابوں کی دکانوں کے مالکان اور عملے کو ڈرانے دھمکانے والوں کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہمارے لیے آزادیِ اشاعت آزادیِ رائے پر عمل درآمد، ثقافتی اظہار اور جدوجہد کا ایک مظہر ہے۔ ہم بطور ناشرین ایسا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں جس میں تخلیقی اور تنقیدی فلسطینی آوازیں پنپ سکیں اور جہاں سامراجیت، صیہونیت اور نوآبادیاتی آبادکاری کے خلاف برسرِپیکار تمام لوگ متحد ہو سکیں۔ ہم بغیر کسی قدغن کے ان تمام تصنیفات کی اشاعت، تدوین، تقسیم، تشہیر اور ان پر بحث و تمحیص کا حق محفوظ رکھتے ہیں جو فلسطینی آزادی کا دو ٹوک مطالبہ کرتی ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اس جدوجہد میں ہمارا یہی کردار ہونا چاہیے۔
فلسطینی مصنفین اور لکھاریوں کی زباں بندی محض فلسطینی ادبی جدوجہد سے خوف کو ظاہر کرتی ہے، اور فلسطنیوں کی نسل کشی اور ان کے وطن پر قبضے میں حصّہ داری کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ خوف جو بمباری، تباہی و بربادی، اغوا اور فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی نفسیات میں مضمر ہے وہی خوف ہے جس کے زیرِ اثر اسرائیل نے فلسطینی تصنیفات کو اپنے قابو میں کر رکھا ہے۔ غسان کنافانی کا کہنا ہے کہ ’’فلسطینی جدوجہد صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ ہر انقلابی کے لیے بامعنی ہے۔‘‘ وہ ہمیں یاد کراتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اس وقت تک آزاد نہیں جب تک ہم سب آزاد نہیں ہو جاتے۔
یہ فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہوتے ہوئے سامراج مخالف جدوجہد کے ایک نئے دور میں قدم رکھنے کا وقت ہے، ایک ایسا دور جو اوسلو مراعات اور صیہونی ریاست کے ساتھ عمومی تعلقات کی استواری سے انکار کا دورہے۔ یہ نوآبادیاتی سامراجی طاقتوں کے خلاف ان تاریخی فتوحات کو یاد کرنے کا وقت ہے جو الجزائر جیسے ممالک نے فرانسیسی استعمار کے خلاف حاصل کیں۔ یہ اسرائیل اور اس کے امریکی اور یورپی پشت پناہوں سے فلسطینی آزادی کے لیے اپنی حمایت میں مزید تیزی لانے کا وقت ہے ۔ یہ ہمارے یک آواز ہو کر دھمکیوں، ظلم، خوف اور تشدد کے سامنے ڈٹ جانے کا وقت ہے ۔
ہم مختلف اشاعتی اداروں میں اپنے کامریڈوں، دوستوں اور ساتھیوں کو اس مراسلے پر دستخط کے ذریعے اور مندرجہ ذیل مطالبات کی حمایت کی دعوت دیتے ہیں:
فلسطینی نسل کشی کو روکا جائے اور غزہ، مغربی کنارے کی بستیوں اور تاریخی فلسطین کے علاقے میں بکھرے ہوئے فلسطینی عوام کے کے خلاف ہر قسم کا تشدد بند کیا جائے۔
اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو جنگی جرائم کے لیے قصور وار ٹھہرایا جائے۔
فلسطینی عوام کے آزادی، جدوجہد اور وطن واپسی کے مطالبے کو تسلیم کیا جائے۔
اسرائیل نسلی امتیاز کے بائیکاٹ، روک تھام اور پابندیوں کے مطالبے یعنی بی ڈی ایس کو مانا جائے۔
یہ یقینی بنایا جائے کہ فلسطینی آوازوں کو آنے والے بین الاقوامی کتاب میلوں اور ادبی نمائشوں میں خاموش نہیں کیا جائے گا بلکہ انہیں مہمانانِ خصوصی کے طور پر مدعو کیا جائے گا کہ وہ اپنی بپتا سنا سکیں۔
یہ عہد کیا جائے کہ اشاعتی صنعت کو علم و تدریس اور آزادیِ اظہار کا اصل مقام واپس دلایا جائے گا۔
بطور ناشرین ہم فلسطینی آوازوں اوران تمام لوگوں کو تخلیقی پلیٹ فارم مہیا کریں گے جو اس جنگ و جدل کے خلاف متحد ہیں۔
اگر آپ کسی اشاعتی ادارے سے منسلک ہیں اور ہمارے بیان سے اتفاق کرتے ہیں تو اس لنک سے منسلک فارم کو بھر دیجیے۔
This copyright free text may be copied and disseminated without limit.